Pakistan

جولائی سے نیا بائیو میٹرک نظام، ’فنگر پرنٹس کام نہ کریں تو پیسے کون دے گا؟‘

If fingerprints don't work, who will pay?

کراچی کے رہائشی 65 سالہ عبدالغفور خان ایزی پیسہ شاپ پر رقم نکلوانے اور اپنی پرانی سم بحال کروانے گئے تو بائیو میٹرک مشین پر ان کے فنگرپرنٹس کی شناخت نہیں ہو سکی۔

دکان دار نے بیٹے کی بھیجی گئی رقم تو عبدالغفور کو دے دی مگرساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ پرانی سم دوبارہ ایکٹو نہیں ہو سکتی اور اب بائیو میٹرک تصدیق کے بغیر رقم نکالنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔

عبدالغفور خان نے بےبسی سے کہا کہ ’یہ وہی انگلیاں ہیں جن سے عمر بھر مزدوری کی مگر اب یہ پہچانی نہیں جا رہیں؟‘

یہ صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں، بلکہ ان ہزاروں بزرگ شہریوں کا مسئلہ ہے جن کے فنگر پرنٹس محنت مشقت کے باعث مدہم ہو گئے ہیں۔ چنانچہ بائیومیٹرک تصدیق کا متبادل نظام نہ لایا گیا تو لاکھوں شہریوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ایزی پیسہ اور جیز کیش پر رقم نکلوانے یا جمع کروانے کے لیے بائیو میٹرک تصدیق کروانے کے احکامات پر عملدرآمد کیا جائے۔

اس کا اطلاق صرف ان صارفین پر ہوگا جو کسی دکان یا فرنچائز سے فزیکل ٹرانزیکشن کریں گے۔

یعنی اگر کوئی صارف موبائل ایپ کے ذریعے رقم منتقل کرے گا تو بائیو میٹرک تصدیق درکار نہیں ہوگی مگر دُکان سے نقد رقم نکلوانے یا جمع کروانے کے لیے فنگر پرنٹس کے ذریعے شناخت ضروری ہو گی۔

یہ اقدام رقوم کی غیر قانونی منتقلی اور منی لانڈرنگ کے سدِباب کے لیے اٹھایا گیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام ہر شہری کے لیے قابلِ رسائی ہے خاص طور پر وہ بزرگ افراد جن کے فنگر پرنٹس وقت کے ساتھ مدہم ہو چکے ہیں؟

New biometric system from July, 'If fingerprints don't work, who will pay?'
New biometric system from July, ‘If fingerprints don’t work, who will pay?’

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button