Tips to achieve enrollment 100 percent Attendance 100 percent Dropout zero percent

Tips to achieve enrollment 100 percent Attendance 100 percent Dropout zero percent

ہیڈ مسٹریس کے دفتر میں میٹنگ پوری سنجیدگی سے جاری ہے۔ تمام اساتذہ سربراہِ اِدارہ کی طرف متوجہ ہیں۔ لا حاصل بحث، ابھی ہیڈ کے خطاب کے بعد شروع ہو گی۔۔۔
میٹنگ کا ایجنڈا ای ڈی او آفس نے میل کیا ہے۔۔۔۔
1- رزلٹ سو فیصد۔
2- انرولمنٹ میں اضافہ۔
3-ڈراپ آؤٹ کا خاتمہ۔
4-روزانہ حاضری۔ سو فیصد۔
یوں تو تمام نکات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں، لیکن تفصیل میں جا کے یہ امتزاج خاصا احمقانہ معلوم ہوتا ہے۔
میڈم نے نکات پڑھنے شروع کیے۔
ہر جماعت میں داخلہ پچھلے سال سے دس فیصد زیادہ ہو۔
کسی بچے کا نام سکول سے خارج نہ کیا جائے۔ نہ کوئی فیل کیا جائے،
رزلٹ سو فیصد دیا جائے ورنہ سزا اور انکوائری کے لئیے تیار رہیں۔
ابھی بات یہیں تک پہنچی تھی کہ اساتذہ کا ضبط جواب دے گیا۔۔۔۔ وہ شور اٹھا کہ الامان، الحفیظ۔۔
اگر گاؤں میں بچے ہی نہ ہوں تو دس فیصد اضافہ کدھر سے ہو۔
سو فیصد حاضری ممکن نہیں، بچے بیمار بھی ہوتے ہیں اور مجبوریاں اپنی جگہ۔
فیل نہ کریں تو لائق بچوں کی حق تلفی ہے۔ کیا خود پرچہ حل کر دیں ؟
غرض بھانت بھانت کی آوازوں سے کمرہ بھر گیا اور میڈم نے پیپر ویٹ اٹھا کر میز پہ دے مارا۔۔۔۔۔ تڑاخ۔۔۔
خاموشی۔۔۔۔۔
“آپ سب جو بھی کہیں۔ مجھے ہر جماعت میں 10 فیصد زیادہ بچے چاہئییں۔
گھر گھر جائیں اور تلاش کر کے ۔۔۔۔۔”
کھوتی سکول ل ل ل۔۔۔۔۔۔
باہر سے کسی بچے نے شرارت سے ہانک لگائی، جو بخوبی سب نے سنی۔ میڈم کی بات بیچ میں رہ گئی اور سب کا پارہ آسمان کو چھونےلگا۔
لو۔۔۔ ادھر مر رہے ہیں محنت کر کر کے اور کھوتی سکول کا ٹھپہ نہیں اتر رہا سر سے۔
اگلا دِن۔
اسمبلی کے فوراًبعد کا منظر۔
“میڈم میری کلاس کی ایک بچی کی طبعیت ٹھیک نہیں۔ وہ چھٹی پر ہے۔” مِس صدف نے رونکھی ہوتے ہوئے اِطلاع دی۔
“کیا۔۔۔؟”
میڈم نے ابرو اٹھائے۔ ” ادھر BHU سے سٹریچر بھیجو اور اسے بلواؤ۔ “
“لوجی۔ میم وہ بہت بیمار ہے۔”
“ٹھیک ہے پھر اسکی جگہ آپ بیٹھ جانا جب مانیٹرنگ والا گنتی کرے گا بچوں کی۔”
میڈم نے سر سے بلا ٹالی اور آج کی ڈاک دیکھنے لگیں جو ای ڈی او کے دفتر سے آئی تھی اور ابھی واپس بھی بھیجنی جانی تھی۔
چارونا چار بخار میں پھنکتی ہوئی بچی کو گھر سے بلوانا پڑا۔
“میڈم میری کلاس کے پانچ بچے مسلسل چارماہ سے نہیں آرہے۔ ایک بچے کی حادثاتی طور پہ وفات ہو چکی ہے۔
اِن کے نام خارج کر دیں”۔۔۔
“کیا۔۔۔؟” میڈم نے یوں چونک کر سر اٹھایا کہ مِس آسیہ کے اوسان خطا ہو گۓ۔ کرسی سے گِرتے گِرتے بچی۔
“پانچ بچے۔۔۔؟ ” ضلع بدر کروانے کا اِرادہ ہے مجھے ؟ ڈراپ آؤٹ میں نام آجائے گا سکول کا۔ ابھی 100 بچوں کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے مجھے، اور آپ پانچ بچوں کے نام نکلوانے آ گیئں؟ “
“تو کہاں سے لاؤں پھر ؟ حاضری پوری نہیں ہوتی پھر۔” مِس آسیہ بھی حواس بحال کر کے تنک کے بولیں۔
“آج ان سارے بچوں کے گھر جاؤ اور جس جس کے گھر اس سال بچے پیدا ہوئے ہیں، ان سب کے نام بھی داخل کرو۔ آج ہی ٹارگٹ پورا کر کے بھیجنا ہے۔”
جی۔۔۔۔ میم اِس سال پیدا ہونے والے بچے ؟
جی ہاں۔ بلکہ اس مہینے میں بھی۔
“پھر ساتھ ڈھولکی بھی لے جاتے ہیں لگے ہاتھوں۔ سلامی لیں گے۔” مِس آسیہ نے طنزاً کہا۔
“ہاں لے جاؤ” ہیڈ مسٹریس نے مصروف سی بے دھیانی میں کہا اور ڈاک کے کاغذات میں الجھ گئیں۔
تیسرا منظر۔
میلی سی چارپائی پر مِس صدف اور آسیہ براجمان ہیں۔ سامنے مرنجانِ مرنج خاتون دو ماہ کا بچہ لیۓ بیٹھی ہے۔
جی تو کیا نام رکھا بچے کا۔
ابھی تو نہیں رکھا جی۔ اسکی پھوپھی نے رکھنا ہے کراچی والی۔
تو آپ رکھ لیں نا۔ وہ جب آۓ گی تب رکھ لے گی۔ ہم نے داخل کرنا ہے اسے سکول میں۔
ابھی تو بہت چھوٹا ہے جی۔۔۔۔ ماں بلبلائ۔
کوئی بات نہیں۔ آپ نام رکھیں۔ بلکہ ہم رکھ دیتے ہیں۔ کاشف ٹھیک ہے۔
نہیں جی، اسکی پھوپھی لڑے گی۔
کوئی بات نہیں۔ جو نام پھوپھی رکھے گی وہ بھی داخل کر لیں گے۔ اچھا ہے دو بچے داخل ہو جائیں گے۔
لیکن میں دو بچے کہاں سے سکول بھیجوں گی، میرا تو ایک ہی ہے۔
عرت صدمے سے چِلا اٹھی۔
“آپ جہاں سے مرضی بھیجیں، ہم نے دو بچے داخل کر لیۓ ہیں۔”
دونوں یہ کہہ کر چلتی بنیں۔
“یار مجھ سے نہیں چلا جاتا اور” صدف نے دیوار کا سہارا لیتے ہوئے کہا۔
بس ایک بچہ داخل کرنے والا رہ گیا ہے، ابھی ان سو بچوں کی حاضری کا بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ بس تھوڑی سی ہمت اور کرو”۔ آسیہ نے ہمت بندھاتے ہوئے کہا۔
“لیکن پورے گاؤں میں کوئی ایک بچہ بھی نہیں بچا ہے مزید۔حتیٰ کہ کل پیدا ہونے والا بچہ بھی داخل کر لیا۔
اور ساتھ والے علاقوں کے اپنے سکول ہیں۔ کہاں سے لائیں ایک بچہ۔۔۔؟؟؟؟
صدف چِلاّ ہی تو اٹھی۔
“یار یہ جو سامنے گدھا ہے، اسکا بھی تو کوئی نام ہو گا۔”
آسیہ نے پر سوچ انداز میں سامنے بندھے ہوئے گدھے کو دیکھااور ساتھ کھڑے بچے کو جو اسکا اپنا شاگرد تھا۔
جی مِس جی۔ یہ میرا ہی گدھا ہے اور میں نے اسکا نام وزیر رکھا ہوا ہے۔
بچے نے فخریہ پیشکش آگے کرتے ہوئے کہا۔
“ہممم۔۔۔۔ وزیرِتعلیم ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔” صدف نے چِڑ کر کہا۔ ” چلو آسیہ اسکا نام داخل کرو”
ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟
“ہاں۔ نام داخل کرو اسکا۔ ولدیت میں بادشاہ سلامت لکھ لو۔۔۔۔ اور حسن۔۔۔!”
پلٹ کے بچے کو پکارا۔
“کل سے اسے سکول لے کے آنا۔ اگر فوجی ( مانیٹرنگ آفیسر) آ گیا تو گنتی کرے گا۔
جی مِس جی۔ بچے نے تابعداری سے کہا۔
آخری منظر۔
میز پر مٹھائی کا ڈبہ کھلا پڑا ہے۔
انرولمنٹ ٹارگٹ پورا ہو چکا ہے۔ مِس آسیہ اور صدف کو شاباشی دی جارہی ہے۔ ہیڈ مسٹریس بہت خوش ہیں۔
“شکر ہے ٹارگٹ پورا ہوا۔ ڈراپ آؤٹ کا رولا بھی ختم۔ فوت شدہ بچے کی جگہ اسکے والد کا نام لکھ کر کمی پوری کر لی گئی ہے۔
اب میں بھی ضلع بدر ہونے سے بچ گئی ہوں اور آپ بھی سو فیصد نتائج “بنانے” کی وجہ سے سزاؤں سے بچ گئے ہیں۔”
جی میڈم۔ بہت مشکل تھا یہ کام مگر۔۔۔ کر ہی لیا۔
اساتذہ نے داد طلب نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ لیکن اچانک ہی اس مبارک سلامت کے شور میں ایک ہانک بلند ہوئی۔۔۔۔
“کھوتی سکول ل ل۔۔۔۔۔۔۔ ” کسی بچے نے شرارت کی۔ اور تمام اساتذہ نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھا دیئے۔۔۔۔۔
رہتی تھی جو سکول کو ادب سے۔۔۔۔
وہ نسبت۔۔۔ تمام شُد۔۔۔۔!!
(پنجاب حکومت کی غلط پالیسیوں اور جواباً اساتذہ کی بوگس پالیسیوں سے وجود میں آنے والی “معمولی” صورتحال کا معمولی سا تجزیہ۔۔۔ میری زبانی۔۔۔۔ کسی کی کہانی)

Leave a Reply